Orhan

Add To collaction

عشق ہےساحب

چیزہو وہ اٹھی اور روم فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور منہ سے لگا لی اس نے خود کو ریلیکس کیا اور پھر پڑھنے لگی۔

"اس دن کہیں گے اے ہمارے رب ہم پر سے عذاب کھول دے ہم ایمان لاتے ہیں۔" وہ بڑھتی گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے گئے۔ " تو تم انتظار وہ بھی کسی انتظار میں ہیں۔" آخری لائن پڑھ کے اس نے اپنے آنسو صاف

کیے اسے سیدھا راستہ مل گیا تھا اس نے بے خودی کے عالم میں اللہ کو پکارا تھا ایک عجیب سا سکون اسے ملا تھا۔ "اے اللہ مجھے سمجھ آ گئی ہے مجھے خواب میں اس لڑکے کو دکھانا اور پھر اس کا مجھے یہ الفاظ کہنا اور پھر اس کا پاکستان سے میکسیکو آنا اور پھر مجھ سے ملنا ، آپ نے مجھے چن لیا ہے ہدایت کے لیے آپ نے مجھے ان لوگوں سے نکال لیا ہے جن پر تیرا عذاب نازل ہوگا اے میرے اللہ میں تجھ پر ایمان لاتی ہوں میں تیری اس کتاب پر ایمان لاتی ہوں، تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں، بے شک میں گمراہی کے راستے پر چل رہی تھی میں گناہوں میں لتھڑی ہوئی ہوں میرے سارے گناہ معاف کردے۔“ وہ سسکتے ہوۓ اللہ کوپکار رہی تھی اس نے اٹھ کے کھڑکیاں کھولیں اب اسے کوئی خوف محسوس نہیں ہورہا تھا وہ مسکراتے ہوئے اندھیرے میں ڈوبے آسمان کو دیکھنے گی جیسے اسے یقین ہو کہ اللہ ا سے دیکھ رہا ہے۔

وہ یونیورسٹی کے لیے تیار تھی اورآئینہ میں بطور اپنے نظر آتے عکس کو دیکھنے لگی ' وائٹ پینٹ پہ فل فیٹنگ کے ساتھ ڈارک بلیو لانگ شرٹ پہنے سفید جالی دار ڈوپٹہ گلے میں ڈالے ' کانوں میں بلیو کلر کے ٹاپس اور ہاتھ پر بلیو ہی بریسلٹ (جو احمر نے اس دن کار میں اسے گفٹ کیا تھا) آنکھوں میں کاجل پلکوں پر مسکارا اور ہونٹوں پرگلابی لپ اسٹک لگائے بلاشبہ وہ بہت حسین لگ رہی تھی اس کے ذہن میں لاشعوری طور پراپنی چار سال پہلے کی لک نظر آئی تھی۔ بڑی سی چادر میں لپٹی ساده سی ایک لڑکی کی' اس نے نفرت سے سر جھٹکا۔ بھلا وہ بھی کوئی زندگی تھی اسے اپنی اس زندگی سے یہ والی زندگی پسند تھی جو وہ اپنوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کے گزار رہی تھی آج اس کا یونیورسٹی میں آخری دن تھا کاش یہ لمحے ادھر ہی تھم جائیں، اس نے دل سے دعا کی تھی ۔

" بہت خوب صورت لگ رہی ہو ہمیشہ کی طرح اس لیے اب آ جاؤ احمر انتظار کررہا ہوگا تمہارا۔“ زینب نے اسے آئینے کے سامنے کے کھڑا ہوا دیکھ کے کہا تو وہ مسکراتے ہوۓ اس کے ساتھ چل دی۔ وہ یونیورسٹی میں ابھی فرنٹ لائن کے آگے سے گزر ہی رہی تھی کہ اس کی کلاس فیلو زوبیہ نے اسے پکارا تھا وہ اپنی فرینڈز سے بولی۔

"آپ لوگ جاؤ میں زوبیہ کی بات سن کے کیفے میں آ جاؤں گی ۔ وہ لان کے بنچ پر زوبیہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بولی ، " ہیلو کیسی ہو؟"

" میں ٹھیک ہوں، آج ہمارا لاسٹ ڈے ہے تو سوچا تم سے بات ہی کر لی جائے ۔" زوبی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"ہاں یار پتہ ہی نہیں چلا کیسے چارسال گزر گئے۔" اس نے افسردہ ہوتے ہوئے کہا۔

” یاد ہے جب تم نے بلیک ڈریس پر بڑی سی چادر لی ہوئی تھی تب تمہارے چہرے پر نمازیوں کا سا نور اور کشش تھی لیکن جب کلاسز کے لیے فرسٹ ڈے آئی تو میں یقین ہی نہ کر پائی کے یہ تم نے غلط لڑکیوں کی روش اختیار کر لی تھی اور آج تک تم اسی روش پر چل رہی ہو تم اپنے والدین کو دھوکا

   2
1 Comments

Naymat khan

21-Dec-2021 04:15 PM

Good

Reply